Ask Hafiz Abdul Salam Bin Muhammad Bhutvi

Facebook
Twitter
LinkedIn
abdul-salam

Table of Contents

Hafiz Abdus Salam Bin Muhammad Bhutvi is a well-known Muslim philosopher and scholar of Islam, especially in Pakistan. His Tafseer of Quran Al Kareem is a great effort of himself in preaching Islamic teachings. Hafiz Abdus Salam Bin Muhammad Bhutvi died on May 29, 2023.

تفسیرِ قرآن الکریم:

حافظ عبد السلام بھٹوی کی تفسیرِ قرآن الکریم ان کی اہم کتابوں میں سے ایک ہے۔ یہ عظیم کام ان کی محنت و جدوجہد کا نمونہ ہے جو قرآنی آیات کی تشریح میں ان کی علمی قابلیتوں کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ تفسیر ہر عمر کے لیے نہایت آسان ہے۔

حصن المسلم کا ترجمہ:

حافظ عبد السلام بھٹوی نے مشہور کتاب “حصن المسلم” کا ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ عمومی مسلمانوں کے لئے ایک اہم مجموعہ ہے جو اسلامی دعاؤں کو اردو زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ حصن المسلم کا ترجمہ افراد کو مختلف مواقع پر اسلامی دعاؤں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ ترجمہ ان کو اسلامی روزمرہ کی زندگی میں ہدایت فراہم کرتا ہے اور انہیں مختلف مسائل اور حالات کے لئے اسلامی دعاؤں کی ضرورت سے آگاہ کرتا ہے۔

7 thoughts on “Ask Hafiz Abdul Salam Bin Muhammad Bhutvi”

  1. Abdul Wasay Barkaat

    ·
    آہ حافظ صاحب !!!
    انتہائی غمگین خبر آج ہزاروں لاکھوں آنکھیں نہیں دل رو رہے ہوں گے
    ہماری فیملی کے ساتھ بہت گہرا تعلق تھا گوجرانوالہ جمعہ کے بعد اکثر ہمارے گھر تشریف لے آتے اور والد گرامی رحمہ اللہ بھی ان سے ملاقات کرنے کے لیے مریدکے چلے جاتے اور ہمارے گھر کا کوئی فنکشن ایسا نہیں تھا جس میں محترم حافظ عبدالسلام صاحب رحمہ اللہ تشریف نہ لاتے ہوں . کبھی والد گرامی رحمہ اللہ نے دعوت پہ بلا لینا رمضان میں کبھی افطاری رکھ لینی .
    اگر کوئی شادی نکاح کا پروگرام ہوتا تو والد گرامی رحمہ اللہ کی خواہش ہوتی تھی نکاح محترم بھٹوی صاحب سے ھی پڑھایا جائے اور وہ بھی انتہائی شفقت و محبت کے ساتھ صرف ایک کال پہ محبتوں کے ساتھ تشریف لے آتے اور مجلس کو اپنی مسکراہٹوں سے چار چاند لگاتے ساتھ ڈھیروں دعاؤں سے نوازتے .
    جب والد گرامی رحمہ کی وفات ہوئی تو میں نے ان کو فون کیا خبر سن کر کچھ لمحے بالکل خاموش رہے جیسے وہ اس خبر کے لیے تیار نہیں تھے پھر لاہور میں جنازہ انہوں نے پڑھایا اور بہت نصیحتوں سے نوازا اور دلاسا دیا .
    والد صاحب کی وفات کے بعد حافظ صاحب کے ایام اسیری شروع ہو گئے ہم ایک دفعہ ان کی سب جیل میں ملنے کے لیے تشریف لے گئے تو چھوٹے بھائی حماد کو دعائیں دیں کہ کاکا شادی کر لے ھن ھم نے کہا دعا کریں اچھا رشتہ مل جائے تو بہت سی دعائیں دیں .
    دو سال پہلے ہمشیرہ کی شادی تھی ان کو شرکت کی دعوت دی تو فرمانے لگے آپ کو پتا ہے میں باھر نہیں جا سکتا ہمارے لیے دعا کریں کہ اللہ آسانی فرما دے .
    رمضان سے پہلے چھوٹے بھائی حماد کی شادی طے ہوئی تو تب پھر حافظ صاحب سے رابطہ ہوا تو انہوں نے مجھے وائس میسج بھیجا جو ابھی تک سنبھالے ہوئے ہوں جس میں انہوں نے والد گرامی ، چچا جان اور دادا جان سے تعلق و محبتوں کا ذکر کیا اور پھر اسیری کی وجہ سے معذرت کرکے بہت سی دعاؤں سے نوازا .
    آج اسیری میں ھی اپنے رب سے جا ملے
    خبر پڑھ کر آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے ہمارا حال یہ ہے کہ والد صاحب کے دوستوں میں سے کوئی شخصیت وفات پاتی ہے تو وھی غم پھر تازہ ہو جاتا ہے آنسو امڈ آتے ہیں
    اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اے اللہ تیرے اس عظیم بندے نے ساری زندگی تیرے دین کی سربلندی اور اس کی خدمت میں گزارے ہیں ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کو دین اسلام کے راستے پہ گامزن کیا ہزاروں شاگردوں کو انبیاء کا وارث بنایا
    اے اللہ یہ ساری کوششیں کاوشیں تیری رضا کی خاطر کی ہیں اے اللہ تو حافظ صاحب سے راضی ہو جا اور اپنی جنتوں کا مہمان بنا لے جس کا تو نے وعدہ کیا ہے اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں سے . آمین ثم آمین یارب العالمین
    (تصویر میں والد گرامی عبدالحمید ابو البرکات رحمہ اللہ اور چچا جان حافظ عبدالسمیع عاصم صاحب حفظہ اللہ ان کی تصویر پہ دل کا نشان لگایا تصویر کو قطعی جائز نہیں سمجھتے، اور دوسری طرف بڑے حافظ صاحب ساتھ الشیخ بھٹوی صاحب ہمارے گھر تشریف فرما ھیں )

  2. تفضیل احمد ضیغم

    کجھ بیتے لمحات
    جب میں بخاری شریف پڑھنے کیلئے استاذ گرامی شیخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو طبیعت میں ذرا لا ابالی پن تھا میں روزانہ استری کئے ہوئے کپڑے پہنتا اور کچھ بن ٹھن کے رہتا تھا میں ان دنوں اہل حدیث یوتھ فورس کا ایک جذباتی کارکن تھا جب میں مرکز طیبہ کا طالب علم بنا تو مجھے بتایا گیا آپ کا گروپ عبداللہ بن عباس۔ہے ان دنوں مدرسہ میں طلباء کے گروپ بنا کر انہیں مختلف نام دے دیئے جاتے اور اس اعتبار سے انہیں کچھ ذمہ داریاں سونپ دی جاتی تھیں خیر رات مرکز میں گزاری اور صبح ایک طالب علم بھائی کو اعلان کرتے ہوئے سنا عبداللہ بن عباس گروپ کے طلباء میرے پاس جمع ہو جائیں چنانچہ اس گروپ کے طلباء جمع ہو گئے تو انہیں حکم دیا گیا کہ واش رومز صاف کرنے کا سامان اٹھائیں اور نئے سکن کے واش رومز دھونے کی ذمہ داری آپ کی ہے میں نے کبھی ایسا کام نہیں کیا تھا لیکن امیر صاحب کا حکم تھا اس لیے جھاڑو اور پائپ وغیرہ اٹھا کر چل دیئے جب پورا ہفتہ لیٹرینیں صاف کرنا پڑیں تو میری طبیعت اچاٹ ہو گئی میں ان کاموں کا عادی نہیں تھا چنانچہ میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور واپس آ گیا میں ہفتہ بھر کلاس میں نہیں گیا میری عدم موجودگی میں کلاس کے طلباء نے شیخ بھٹوی صاحب کو بتایا کہ یہ طالب علم ذرا شوقین سا ہے جامعہ سلفیہ سے آیا ہے اور ان کاموں کا عادی نہیں ہے میں ہفتہ بعد پھر مدرسہ پہنچا مجھے یاد ہے جب میں کلاس میں داخل ہوا شیخ صاحب بخاری شریف پڑھا رہے تھے ہفتہ بھر کی غیر حاضری سے میں ڈرا سہما کلاس کے دروازے پر آیا اور اجازت مانگی شیخ صاحب نے میری طرف دیکھا۔۔۔۔ آہ۔۔ محدث دوراں۔ عرب وعجم میں ان کے پھیلے ہوئے شاگرد اور ایسی شخصیت کہ علماء بھی ان کی مجلس میں سرنگوں بیٹھیں لیکن کمال شفقت اپنی جگہ سے اٹھے اور مجھے گلے لگا لیا اور فرمانے لگے۔۔۔ مولوی صاب میں لکھ دیندا واں تسیں لٹریناں صاف نئیں کرنیاں۔۔۔ میں کلاس فیلوز کی موجودگی میں شرمندگی بھی محسوس کر رہا تھا اور فی الحقیقت شیخ صاحب نے مجھے لکھ کر دے دیا وہ تحریر عرصہ تک میرے پاس محفوظ رہی لیکن اس تربیت کا یہ اثر ہوا کہ مجھے مدرسہ پڑھاتے ہوئے بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے میں نے واش رومز صاف کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

  3. علامہ ابتسام الہی ظہیر

    یک عظیم عالمِ دین کا انتقال
    🖋️کالم۔علامہ ابتسام الہی ظہیر
    دنیا میں جو بھی آیا ہے اُس کو ایک دن دنیا سے ضرور جانا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے ۔ سورۂ قصص کی آیت نمبر 88میں ارشاد ہوا: ”ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے مگر اُس کا چہرہ (یعنی ذات)‘ اُسی کے لیے حکم ہے (فرمانروائی) اور اُسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ رحمن کی آیات 26 تا 27میں بھی اس حقیقت کو کچھ یوں فرماتے ہیں : ”ہر ایک جو اس (زمین ) پر ہے فنا ہونے والا ہے۔ اور باقی رہے گا آپ کے رب کا چہرہ (جو) صاحبِ جلال اور عزت والا ہے‘‘۔
    بعض لوگ دنیا میں رہتے ہوئے ایسی زندگی گزارتے ہیں کہ لوگ ان کے چلے جانے پر خوشی اور فرحت محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ زمین پر اپنے خالق و مالک کی بغاوت کرنے والے اور انسانیت کو ظلم کانشانہ بنانے والے ہوتے ہیں۔ آنے والی نسلوں میں بھی اُن کو برے ناموں اور القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ فرعون ، قارون، ہامان، شداد، نمرود اور ابولہب کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے کہ دنیا سے چلے جانے کے کئی صدیوں بعد بھی لوگ انہیں برے انداز سے یاد کرتے ہیں اور اُن کے بارے منفی تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کلام میں ایسے لوگوں کی داستانوں کو عبرت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اُس کے مدمقابل ایسے لوگ بھی ہیں کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ان کی رحلت پر لوگ انتہائی غمزدہ ہو جاتے ہیں اور اُن کے جانے کے بعد اُن کے تذکرے اچھے الفاظ میں کیے جاتے ہیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی رحلت یقینا انسانیت کے لیے سب سے بڑا نقصان تھا ۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے ورثا اس زمین پر علمائے ربانی ہیں۔ علما کرام زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے نبیوں کی تعلیمات کو آگے بڑھاتے اور دین کے پیغام کو ہرسُو پہنچاتے ہیں۔ کسی بھی باعمل عالمِ دین کا انتقال یقینا بہت بڑا سانحہ ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے :
    صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا‘ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے بلکہ وہ (پختہ کار) علما کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا، حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار (پیشوا) بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
    صحیح بخاری ہی میں عمل کے حوالے سے ایک اہم اثر موجود ہے ۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ تمہارے پاس رسول اللہ ﷺکی جتنی بھی حدیثیں ہوں‘ ان پر نظر کرو اور انہیں لکھ لو کیونکہ مجھے علمِ دین کے مٹنے اور علمائے دین کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی کی حدیث کو قبول نہ کرو اور لوگوں کو چاہیے کہ علم پھیلائیں اور (ایک جگہ جم کر) بیٹھیں تا کہ جاہل بھی جان لے اور یقینا علم چھپانے ہی سے ضائع ہوتا ہے۔
    احادیث اور آثار سے اس بات کو جاننا کچھ مشکل نہیں کہ عالم کی موت یقینا ایک بہت بڑا سانحہ ہے اور اس کے نتیجے میں علم میں واضح طور پر کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اسی لیے جب بھی کبھی باعمل عالمِ دین کا انتقال ہوتا ہے تو دیگر تشنگانِ علم کی طرح میں بھی اس صدمے کو نہایت گہرے انداز میں محسوس کرتا ہوں۔ اسی قسم کے ایک عالم دین 29 مئی کے روز اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔
    حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی ایک عظیم عالم دین تھے۔ آپ نے ساری زندگی دین کی خدمت میں گزار دی۔ آپ قرآنِ مجید کے عظیم مفسر اور احادیث کے بہترین شارح تھے۔ آپ 50 برس سے زیادہ عرصہ درس و تدریس سے وابستہ رہے اور ہزاروں کی تعداد میں تشنگانِ علم نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذکو تہ کیا۔ آپ نے بہت سی دینی کتابوں کا ترجمہ کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو جو قلمی صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں‘ اُن کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآنِ حکیم کی ایک عظیم تفسیر کو بھی مرتب کیا۔ یہ تفسیر یقینا اس عہد کی بہترین تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔ اس تفسیر کو بغور پڑھنے والا قرآنِ مجیدکے معانی اور مفاہیم سے نہایت احسن انداز سے واقفیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ حافظ عبدالسلام بن محمد کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خطابت کی صلاحیتوں سے بھی بہرہ ور کیا تھا۔ آپ جب خطاب کرتے تو آپ کے خطاب میں کتاب وسنت کے دلائل بکثرت موجود ہوا کرتے تھے اور سننے والا آپ کے استدلال اور طرزِ بیان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ آپ کی گفتگو سلیس اور رواں ہوتی تھی۔ لوگ آپ کے خطبات اور دروس نہایت ذوق و شوق سے سُنا کرتے تھے۔
    میرا حافظ عبدالسلام بن محمد کے ساتھ کئی اعتبار سے نہایت گہرا تعلق تھا۔ آپ میرے نانا جان حافظ محمد گوندلویؒ کے ارشد تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح والدِ گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒ کے ساتھ بھی آپ کا انتہائی گہرا دوستانہ تعلق تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا۔ جب آپ گفتگو کرتے تو کمال کرتے اور اسی طرح آپ میں گفتگو سننے کی بھی بہت زیادہ صلاحیت تھی۔ آپ جس شخص کی بات کو درست سمجھتے اُس کی بے ساختہ توثیق فرما دیا کرتے تھے اور گفتگو کے جس حصے پر آپ کو اعتراض ہوتا‘ اس پر زیادہ بحث کرنے کے بجائے اُس کو نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔ مجھے کئی مجالس میں آپ کے ساتھ ملاقات کا موقع میسر آیا۔ آپ کے ساتھ ایک طویل ملاقات اُس وقت ہوئی جب ملتان آرٹ کونسل ہال میں ہونے والی ایک تقریب اُن کے ہمراہ مجھے بھی بطور مہمان مقرر مدعو کیا گیا تھا۔ سٹیج پر ہم مختلف حوالوں سے تبادلۂ خیال کرتے رہے اور مقررین کے خطاب میں بیان کیے گئے علمی نکات سے محظوظ بھی ہوتے رہے۔ مولانا نے اس دن بہت زیادہ شفقت اور پیار کا مظاہرہ کیا اور بہت سے اُمور پر ان سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا۔ آپ کی گفتگو آپ کے علم اور عمل کی آئینہ دار تھی۔ آپ جہاں ایک بڑے صاحبِ علم تھے وہیں اس علم پر عمل کرنے کو بھی اپنے لیے انتہائی ضروری سمجھتے تھے اور ایک باعمل عالمِ دین ہونے کی وجہ سے عوام الناس آپ کا بہت زیادہ احترام اور اکرام کیا کرتے تھے ۔
    عصرِ حاضر میں بہت سے لوگ جماعتی وابستگی کی وجہ سے اپنے مؤقف وغیرہ کو تبدیل کر لیتے ہیں لیکن حافظ عبدالسلام بن محمد کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ وقار اور سلیقہ عطا کیا تھا کہ آپ جس بات کو درست اور حق سمجھتے تھے‘ اس کا اظہار جماعتی وابستگی سے بالا تر ہو کر بلاچون و چرا فرما دیا کرتے تھے۔ آپ کی حق گوئی اور حق پرستی کی وجہ سے بہت سے لوگ بالخصوص علما کرام آپ کی شخصیت کا احترام کرنے پر مجبور ہو جایا کرتے تھے۔
    مولانا حافظ عبدالسلام بن محمد ایک بلند پایہ محقق اور مصنف ہونے کے باوجود انتہائی سادہ طبیعت کے حامل تھے۔ آپ سادہ لباس پہنتے اور کسی بھی قسم کی آلائش اور تکبر کو اپنے مزاج کا حصہ نہ بننے دیتے تھے۔ جو شخص بھی آپ سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتا آپ اُس کی طرف متوجہ ہو کر اس کی گفتگو سنتے اور اُس کے سوالات کا تسلی بخش جواب دیا کرتے تھے۔ حافظ صاحب کی مجلس میں بیٹھ کر کبھی یہ بات محسوس نہ ہوتی کہ وہ کوئی اجنبی شخصیت ہیں بلکہ حافظ صاحب سامع کے ساتھ ایک مونس اور غم خوار سرپرست والا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ ان کے دنیا سے چلے جانے سے یہ محسوس ہوا کہ گویا کہ علم کا ایک سمند ر اور عمل کا ایک پہاڑ دنیا سے چلا گیا ہے۔ مولانا یقینا اس عہد میں علم ، آگہی ، شعور اور عمل کی پہچان تھے اور آپ کی خدمات ہر اعتبار سے سنہری حروف کے ساتھ لکھے جانے کے قابل ہیں۔
    مولانا عبدالسلام بن محمد کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس انداز میں قبولیت عطا فرمائی کہ آپ کی تفاسیر اور شروحات سے جہاں مدارس کے طلبہ اور اساتذہ مستفید ہوتے ہیں‘ وہیں کالجز اور یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی آپ کی تفاسیر اور مقالا جات سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ مولانا کی تصنیفی خدمات کے حوالے سے پنجاب یونیورسٹی سمیت دیگر بہت سی جامعات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر مقالا جات کا کام جاری ہے۔ مولانا کی خدمات پر ڈاکٹریٹ سطح کے تحقیقی کا م سے اس بات کااندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مولانا کی دینی اور تدریسی خدمات کو کس انداز میں شرفِ قبولیت سے نوازا ہے۔
    مولانا حافظ عبدالسلام بن محمد کی وفات یقینا علمی دنیا میں بہت بڑا خلا ہے جو مدتِ مدید تک پُر نہیں ہو سکے گا۔ مولانا کے ساتھ عوام کی والہانہ وابستگی کا اظہار اس وقت بھی ہوا جب 30مئی کو مرکز طیبہ میں مولانا کی نماز جنازہ کو ادا کیا گیا۔ اس جنازے میں ملک بھر سے ہزاروں افراد شریک ہوئے اور جنازے میں اکثریت علمائے کرام اور طالب علموں کی تھی۔ جنازے کے موقع پر تمام افراد نے گڑ گڑا کر مولانا کے لیے دُعائے مغفرت کی اور مولانا کو اشکبار آنکھوں کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ مولانا نے اپنے ترکے میں عظیم تصنیفی کام اور شاگردوں کی ایک عظیم جماعت چھوڑی ہے جو ان شاء اللہ قیامت کی صبح تک کے لیے مولانا کے لیے صدقہ جاریہ کا کردار ادا کرتی رہے گی ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مولانا کی قبر پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ،اُنہیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے ، ان کوغریقِ رحمت کرے اور اُن کے پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین!

  4. سید عبد اللہ حسن

    ✍️ سید عبد اللہ حسن
    الحمدللہ اسی سال 2023ء بمطابق 1444ھ کو میں نے آپ سے الجامع الصحیح ۔۔۔۔پڑھی ۔۔۔
    چند ماہ قبل کی بات ہے کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ کو دوران اسیری جب آپکی طبیعت کچھ خراب ہونا شروع ہوئی تھی تو حافظ صاحب نے مجھے کہا کہ آپ ہمیں جمعہ پڑھاؤ میں حیران رہ گیا لیکن میرے لیئے یہ اعزاز کی بات تھی۔
    ایک بار جمعہ پڑھایا حافظ صاحب کے سامنے جمعہ پڑھانا سورج کو چراغ دکھانے والی بات تھی ۔۔۔
    “کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ”
    خیر کچھ دیر بعد پھر حافظ صاحب نے کہا کہ دوبارہ جمعہ پڑھاؤ پھر موقع مل گیا جمعہ پڑھایا پڑھانے کے بعد حافظ صاحب نے کچھ تصحیح بھی کی اس کے بعد بیٹھے تھے کہ حافظ صاحب کہنے لگے خطیب صاحب کو کھانا لا دیں بھائی پوچھنے لگے آپ نے بھی کھانا ہے کہنے لگے اسی بہانے ہم بھی کھا لیں گے۔۔۔
    (عاجزی انکساری کا یک پہلو)
    اس طرح مجھے حافظ صاحب کے سامنے دو بار جمعہ پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے جمعے کے بعد حافظ صاحب نے کچھ نصیحت کی اور جو ساتھی باقی اسیر تھے ان کو کہنے لگے شاہ جی کا گھر یہاں سے تھوڑا دور ہے باقی لڑکے سکن سے آتے تھے کلاس میں لیکن لیٹ ہو جاتے تھے لیکن شاہ ٹائم نال آجاندا سی نالے کول کر کے بیندا ہندا سی۔۔۔۔۔
    اور کئی لحاظ سے تعریف کی(اور یہ حافظ صاحب کا معمول تھا طالب علم اگرچہ کند ذھن ہی کیوں نا ہو آپ اسکی تعریف کچھ نا کچھ ضرور کرتے تھے تاکہ اس کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو اور وہ کچھ کر سکے) پھر ہم نے اکٹھے کھانا کھایا واللہ میں اب بھی ان لحظات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور حافظ صاحب کی طلباءکرام سے محبت یاد کر کے دل رو رہا ہے۔۔۔
    (طلباءسے محبت کا ایک پہلو)
    کچھ دن پہلے حافظ صاحب کے ساتھ ایک اسیر بھائی نے بتلایا کہ ڈاکٹر نے آپ کو کام کرنے سے روکا تھا لیکن آپ پھر بھی جہد مسلسل کے ساتھ روزانہ کچھ نا کچھ احادیث لکھتے رہتے تھے۔
    (حدیث رسول سےمحبت کا ایک پہلو)
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو تین صورتوں کے علاوہ اس کے سب عمل منقطع ہو جاتے ہیں ( اور وہ یہ ہیں ) جاری رہنے والا صدقہ ‘ وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے ۔ “
    اور حافظ صاحب یہ تینوں چیزیں ہی چھوڑ کر گئے ہیں۔
    1صدقہ جاریہ=یہ کہ آپ ہزاروں طلباء کو تیار کر گئے جو آج بھی آگے تدریس کر رہے ہیں اور ایک ناتمام ہونے والا صدقہ جاریہ بن رہے ہیں۔
    2علم= تفسیر اور شروحات حدیث کی صورت میں تفسیر القرآن الکریم کے نام سے تفسیر لکھی جو بے پناہ مقبول ہے اور شرح بخاری لکھ رہے تھے جو کہ آخری مراحل میں تھی۔
    3نیک اولاد=آپ کے ماشاء اللہ تمام بیٹے حفاظ ہیں بلکہ مدرس ہیں اور اپنی اپنی جگہ دین کا کام کر رہے۔
    اللھم ادخلہ الجنة ونور مرقدہ واغفر خطایاہ ۔۔۔آمین یا رب العلمین

  5. Falak Sher Cheema

    میں نے دروازہ کھٹکھٹایا ، انٹرکام سے آواز آئی “السلام علیکم ورحمۃ اللہ ”
    میں نے عرض کیا : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ، حافظ صاحب سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہوں”
    تھوڑی دیر بعد حافظ صاحب، جو اس وقت اپنی جماعت کے دوسرے سینیر ترین قائد تھے، اہلحدیث مکتبہ فکر کے پاک و ہند میں جید ترین علماء میں سے ایک تھے اور سینکڑوں مدارس کے نیٹ ورک کے مدیر اعلیٰ ، اپنے تین چار مرلے کے یک منزلہ گھر کے سادہ سے دروازے پہ تشریف لائے اور سلام دعا کے بعد میں نے مدعا یوں پیش کیا ” حافظ صاحب، یہ ایک نومسلم بھائی کا بیٹا ہے اور ہماری خواہش ہے کہ یہ مرید کے مرکز میں زیر تربیت ہو ”
    حافظ صاحب ، جو بالکل سادہ سی شلوار قمیص میں ملبوس تھے، مسکرا کر گویا ہوئے ” لیکن امیر صاحب نے غیر مقامی بچے حفظ میں لینے سے منع کیا ہوا ہے”
    میں نے متعدد دفعہ اپنی درخواست الفاظ اور پیرایہ بدل بدل کر ، معاملے کی سنگینی پیش نظر رکھ کر انہیں قائل کرنا چاہا ۔
    لیکن انہوں نے اسی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ یہی جواب دیا ” لیکن میرے بھائی امیر صاحب نے منع کر رکھا ہے، امیر کی اطاعت کیسے چھوڑی جا سکتی ہے”

    یہ میری ان سے دو بدو واحد ملاقات تھی، جس میں ان کا وہ تاثر جو انیس سو پچانوے کے لگ بھگ “آُپ کے مسائل اور ان کا حل” سے پڑنا شروع ہوا تھا اور ان کے دروس ؛ جو شستہ اور رواں اردو ، کتاب و سنت کے صریح اور بے حیلہ دلائل سے مزین ہوتے تھے، سے مستحکم ہوا تھا، اب گویا مکمل ہو گیا ۔

    حافظ صاحب کی شخصیت میں جو چیز مجھے سب سے زیادہ پرکشش محسوس ہوتی تھی اور دور رہ کر بھی ان کو مدار ہائے حیات میں سے ایک بنائے رکھتی تھی، وہ ان کی سادگی ، علم و عمل میں مطابقت، دنیا طلبی سے نفور اور خاص ہو کربھی عام رہنا تھا۔ یہ عجیب معاملہ ہے کہ جب کبھی کوئی دل کے نہاں خانوں میں چپکے سے یا علانیہ مکیں ہوا، کم و بیش ہر دفعہ ہی یہ خوبی اس میں موجود تھی؛ انجینیر شبیر وٹو شہید رحمہ اللہ ، حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ ، صوفی عائش محمد رحمہ اللہ، فیصل آباد سے طلباء کا ایک ذمہ دار عاصم جو بعد میں دور دیس اپنا وعدہ نبھا گیا یا ہمارے ممدوح حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمہ اللہ ۔

    بڑے حافظ صاحب اسیر ہوئے تو پہلی دفعہ جماعت کی امارت کا بوجھ حافظ بھٹوی صاحب کے کندھوں پہ پڑا، مجھے پتہ چلا کہ حافظ صاحب نے ذمہ داران کو جماعتی خرچ پہ موبائل فون، شیمپو اور نسبتاً قیمتی ملبوسات استعمال کرنے پہ عار دلائی، بیت المال کے حوالےسے نصیحت فرمائی، پابندیاں عائد کیں اور گاڑیوں وغیرہ کے استعمال کے حوالے سے بھی توجہ دلائی ۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ جماعتی امور کے سلسلہ میں بذریعہ جہاز کراچی تشریف لے گئے ، ایک ذمہ دار آدمی نے مجھے بتایا کہ وہاں بھی اپنے سادہ لباس اور پلاسٹک کے بند جوتوں میں تھے۔ اس سفر میں قومی سطح کے کچھ سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں سے ملاقات ہوئی، لیکن حافظ صاحب نے اپنی خو نہ بدلی اور اپنے “یونیفارم” ہی میں رہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب ایک ایسا آدمی ہی کر سکتا ہے، جسے کوئی احساس کمتری نہ ستاتا ہو۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ان کی شخصیت کا جمالیاتی پہلو شعر و ادب سے ان کی گہری دلچسپی سے ہم سب کے سامنے ہے، ایسا شخص کٹھور اور محض خود نمائی یا خود اذیتی کے لیے کسی ظاہری حلیے پہ اصرار نہیں کر سکتا ، تو اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ان کی سادگی اور عدم تصنع میں کوئی پرکاری اور بناوٹ چھپی نہیں بیٹھی تھی۔
    ایک نشست میں انہوں نے اپنے “عہد تصوف” کی داستان سنائی، مجھے چونکہ اس موضوع سے ایک دلچسپی تھی، تو زیادہ متوجہ ہوا، بتایا کہ کیسے مختلف شیوخ، اہل ذکر اور سلاسل کے ہاں سے ہوتے ہوتے خیبر پختونخوا کے ایک معروف شیخِ طریقت کے ہاں پہنچے، انہوں نے غالباً نقشبندی طریق کے مطابق انہیں ذکر تجویز فرمایا۔ یہ سبق لینے اور غالباً کچھ مشق کے بعد ، فرماتے ہیں “مگر پھر میں نے یہ سوچا کہ یہ جو کچھ بتا رہے ہیں ، یہ محمد الرسول اللہ ﷺ کا طریقہ نہیں ہے” اور یاد رہے کہ یہ جملہ ہی وہ سانچا تھا، جس میں وہ ڈھلے ہوئے تھے۔

    طلباء کی نشستیں ہوتیں ، ہم جیسے پیچھے جگہ ڈھونڈ کر کسی کونے کھدرے میں پڑے ہوتے اور فکری دروس سنتے، جن میں سے کچھ پہ سوال پیدا ہوتے تو انہیں بے فکری کے حوالے کرتے اور پھرموٹی کھال میں مست ہو رہتے۔ حافظ بھٹوی صاحب کا درس البتہ اپنی شگفتگی، شستہ اردو، اپنائیت بھرے سیدھے مگر منطقہ غیب سے کشش کی مٹھاس لیے لہجے، غالب سے میر اور سعدی سے حافظ کے ابیات سے مزین ہونے کے سبب پوری توجہ سے سنا جاتا اور اس کی طوالت کی دعا کی جاتی۔ دوران درس جب فرماتے “میرے بھائیو” ، تو ہر دفعہ جی کرتا کہ جا کر عرض کریں، لبیک ۔۔

    فقہی مباحث کو جس دلچسپ اسلوب سے وہ بیان فرماتے اور یوں محسوس ہوتا کہ لطف لے رہے ہیں، میں نے کم لوگوں کو ایسا دیکھا ہے۔ ایک نشست میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علو کردار کا تذکرہ فرماتے ہوئے خبیب رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا کہ انہیں گرفتاری کے بعد حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا۔ حارث کو آپ ( خبیب)نے غزوہ بدر میں جہنم واصل کیا تھا۔ جب حارث کے بیٹوں نے آپ کو شھید کرنے کا ارادہ کرلیا تو آپ نے حارث کی بیٹیوں میں سے کسی سے استرا مانگا تاکہ وہ زیرناف بالوں سے پاک ہو سکیں۔ لڑکی نے انہیں استرا دے دیا۔ حارث کی بیٹی کہتی ہے کہ میں اپنے بیٹے سے بالکل بے دھیان ہوگئی۔میرا بیٹا خبیب کے پاس جا بیٹھا،میں نے اچانک خبیب کی طرف دیکھا ،اس کے ہاتھ میں استرا تھا، میرا بیٹا اسکی ران پہ بیٹھا ہوا تھا۔اس پورے منظر کو دیکھ کر میں شدید پریشان ہوئی کہ اب میرا بیٹا تو خبیب قتل کردیگا۔ جب خبیب نے میری اس پریشان کیفیت کو دیکھا تو مجھے کہنے لگا: کیا تمہیں یہ ڈر ہے کہ میں تمہارے بچے کو قتل کردوں گا۔میں ان شاء اللہ ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ یہاں حافظ صاحب فرمانے لگے ، بھئی دیکھو خبیب رضی اللہ عنہ نے اس بچے کے قتل کا ڈراوا تک نہیں دیا اسے، کہ چلو ایسے ہی جان بچانے کا سلسلہ ہو جائے۔ فرمایا، بھئی میری فقہ میں قتل نہیں تو کچھ ڈراوے وغیرہ کی تو گنجائش نکلتی ہی ہے ، لیکن دیکھو خبیب کیسا عظیم آدمی تھا اور یہ گروہ صحابہ کیسا کردار کی عظمت کا نمونہ ۔

    ایک مجلس میں شعراء اور بعض صوفیا وغیرہ کا اپنے کلام میں اللہ رب العزت سے کچھ آزاد روی سے مخاطب ہونے اور نامناسب سے خود ساختہ واقعات بیان کر گزرنے پہ انہی سے یہ ضرب المثل پہلی دفعہ سنی اور ان سب حرکات کے بیان میں وہ ایک غیور مومن کی طرح کیسے غصے میں تھے، آواز کانوں میں گونج رہی ہے :
    بازی بازی باریش با ہم بازی …
    یعنی
    کھیلتا ہے، کھیلتا ہے ، باپ کی داڑھی سے کھیلتا ہے

    عمر کے آخری حصے میں قرآن مجید اور حدیث رسولﷺ کی کیسی خیرہ کن خدمات اللہ رب العزت نے ان سے لیں ، جیسے اللہ کو یہ منظور تھا کہ ان کی زندگی کا خاتمہ اس خوب صورت ترین خلاصہ پہ ہو ۔۔

    جماعت پہ مختلف ادوار ہائے فکر گزرے، انہوں نے جماعت کے مختلف جدید مواقف پہ کیا رائے رکھی، میرے پاس اس حوالے سے کوئی ریکارڈ یا اطلاع نہیں ۔ مجھے تو وہ درویش صفت صاحب علم آج بھی دل میں گڑا سا محسوس ہوتا ہے، جس سے غالباً پہلی محبت اس وقت محسوس ہوئی تھی، جب انہوں نے اپنے غیور والد کے بارے میں بتایا کہ دوران تعلیم وہ کئی ماہ سخت سردی میں ایک چادر میں ہی لپٹے رہے ، کسی کو بتایا دکھایا نہیں ، حسن طلب تک کا بھی مظاہرہ نہیں کیا۔ پھر ان کی اپنی شخصیت میں دین کے معاملے میں کتاب و سنت سے تمسک اور دنیا طلبی سے بُعد نے اس محبت کو امر کر دیا، جو الحمدللہ ہم جیسے گناہ گاروں کا سرمایہ ہے ۔

    ایک نشست یاد آ رہی ہے، فی سبیل اللہ خرچ کرنے پہ تشجیع فرما رہ تھے، کہا کہ اپنی آمدنی، جتنی بھی قلیل ہے، اس کا دس فیصد، بیس فیصد ، جتنا کر سکتے ہو، اتنا حصہ اللہ کی راہ میں وقف کر دو، پھر اس کے اثرات دیکھنا، پھر فرمایا کہ یہ کرنے کا کام ہے ، کر کے دیکھو۔ جب کبھی زندگی میں تھوڑا بہت اس پہ عمل کرنے کی کوشش کی، آسودگی ہی آسودگی پائی۔

    ان کی صالح اولاد ، تفسیر و شروح احادیث، مضامین و تراجم اور بے شمار تلامذہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں ان شاءاللہ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، اگلی منزلیں آسان فرمائے اور جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے۔ ہمیں بھی اپنے دین کی خدمت کے لیے چن لے اور بامقصد، مثبت اور بابرکت زندگیاں عطا فرمائے۔
    فلک شیر بھائی نے بھٹوی صاحب رح کی سوانح سے کچھ موتی چنے ہیں .

  6. عبدالقیوم فرُّخ

    نمازِ ظہر استاذِ گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ عبدالعزیز العلوی حفظہ اللہ تعالیٰ نے پڑھائی۔ نماز کے متصل بعد استاذِ گرامی جائے نماز سے اٹھے اورممبر پر جلوہ افروز ہوئے۔
    آپ نے فرمایا: شیخ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ میرے دیرینہ ساتھی تھے۔ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے۔ میرا سنِ ولادت 1943 اوربھٹوی صاحب کا 1946 تھا۔ وہ میرے ہم جماعت بھی تھے۔ وہ ہمیشہ مجھ سے مشورہ کرتے۔ کئی مسائل کیلئے مجھے ٹیلی فون بھی کرتے۔ ان کی تمام کتابیں میرے پاس موجود ہیں۔ میں نے ان کی کوئی کتاب پیسوں سے نہیں خریدی۔ وہ اپنی ہر کتاب مجھے بھیجتے، تحفۃً بھی اور بعض دفعہ نظر ثانی کے لیے بھی۔
    پھر استاذِ گرامی نے بھٹوی صاحب رحمہ اللہ کیلئے دعا مغفرت فرمائی۔

  7. حافظ خضر حیات

    حافظ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ کا قرآن سے تعلق عجیب تھا، مجھے یاد ہے جب ہم جامعہ اسلامیہ میں پڑھتے تھے، بھٹوی صاحب اپنے بیٹے عمر کو ملنے آئے، تو وہاں مسجد ابن باز میں بیٹھ کر انہیں اپنی منزل سنانا شروع کردی۔
    مسجد میں دونوں باپ بیٹا بیٹھے ہوئے، یہ منظر ابھی بھی آنکھوں کے سامنے بالکل تازہ ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top